92

*پاکستان میں میلاد کے نام پر بڑھتی ہوئی خرافات: اسباب’ وجوہات اور سدباب*

تحریر: ڈاکٹر عزیز الرحمن ۔۔

 *پاکستان میں میلاد کے نام پر بڑھتی ہوئی خرافات: اسباب’ وجوہات اور سدباب*

گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر برپا ہونے والی محفلوں اور جلوسوں میں نہ صرف غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ ان تقریبات پر جو اخراجات اور مصارف ہورہے ہیں وہ بھی اتنے زیادہ اور بے تحاشا ہیں کہ ان کی توجیہ اور سورس کے بارے مشکوک ہونا طبعی بات ہے. “عید میلاد النبی” کے بارے میں جواز اور عدم جواز کی بحثیں عام طور پر مذہبی اور مسلکی دلائل تک محدود رہتی ہیں اور ہمارے روایتی مذہبی طبقے چند سالوں کے دوران ہونے والی غیر معمولی فنڈنگ اور دلچسپی کو موضوع بحث نہیں بناتے. ذیل میں اس سلسلے میں چند گذارشات پیش خدمت ہیں.

*آخر اس قدر غیر معمولی دلچسپی کیوں؟*

“صوفی اسلام” اور اس کے بریلوی ورژن میں امریکی تھنک ٹینکس (مثلا رینڈ کارپوریشن) نے جس والہانہ دلچسپی کا اظہار 9/11 کے فورا بعد شروع کردیا تھا اس کو آگے بڑھ کر امریکی و یورپی پالیسی سازوں نے اپنے دفاعی و خارجہ پالیسی کے مقاصد میں شامل کر لیا ہے. سلفیت اور دیوبندیت کو ولن کے طور پر پیش کرکے دنیا بھر میں ہونے والے دہشتگردی کو سلفیوں اور دیوبندیوں کے کھاتے میں ڈالنے کا کام پوری تیزی اور تندہی سے جاری و ساری ہے. پاکستان کے انگریزی اخبارات تو اس امریکی مصالحے کو آئے روز نت نئے طریقوں سے اپنے ادارتی مضامین کے ذریعے فروخت کرتے ہیں. LUBP ٹائپ کے ویب سائٹس اور بلاگز کے ذریعے س تاثر کو پختہ کیا جارہا ہے. سارا زور اس بات پر یے کہ صوفی اسلام اور بریلوی پرامن اور محبت کرنے والے لوگ ہیں اور اس کے برعکس سلفی اور دیوبندی سخت’ متشدد اور جہادی خیالات کے حامل ہیں. اگر ان کا مقابلہ مقصود ہے تو براہ راست امریکی و یورپی پالیسیاں ممد و معاون نہیں ثابت ہوں گی اور اس کے لیے مسلم معاشروں میں موجود لبرل اور صوفی عناصر کو باہم متحد ہوکر سامنے آنا ہوگا. عراق میں امریکی تسلط کی کامیابی اور اس کے بعد مشرق وسطٰی میں جاری کشمکش کے بعد حالیہ مہینوں میں باقاعدہ طور پر ہونے والی ایران اور مغربی ممالک کی صلح نے اس کولیشن میں تیسرے فریق کا اضافہ کردیا ہے. اب لبرل’ صوفی اور شیعہ اتحاد کو امریکی و یورپی حکومتوں کا باقاعدہ اتحادی مانا اور سمجھا جاتا ہے اور LUBP جیسے کردار اس کی ترویج کے لئے اپنا کام کر رہے ہیں. بریلویوں کی امریکی و یورپی درباروں میں غیر معمولی پذیرائی اسی مفاہمت کا نتیجہ ہے اور اس پراجیکٹ پر سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں.

ایک طرف تو تکفیر کا الزام سلفیوں اور دیوبندیوں پر لگایا جارہا ہے اور دوسری طرف برطانیہ میں بیٹھ کر اپنے مسلکی مخالفین کو کھلے عام کافر قرار دینے والی عرفان مشہدی’ اشرفی میاں اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کو نہ صرف پلیٹ فارم مہیا کیا جارہا ہے بلکہ ان کے نفرت انگیز اور فرقہ واریت پر مبنی تقریروں اور لٹریچر کو پاکستان کے مسلم معاشرے کی تقسیم کے لئے ایکسپورٹ کیا جارہا یے.

اس ضمن میں بحمداللہ وطن عزیز کے ذی شعور اور مخلص بریلوی علماء نے اغیار کی اس سازش کو نہ صرف بھانپا بلکہ اس کے تدارک کے لئے بھی وہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں. مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی رحمہما اللہ کے ماننے والے اور پیروکار آخر کیسے اس تہمت کو قبول و برداشت کر سکتے ہیں کہ تصوف اسلام کی جہادی اور حریت پر مبنی تعبیر کے مخالف ہے! استعمار کے خلاف جہاد کی برہنہ شمشیر کے طور پر بریلوی علماء و عوام کا کردار کسی سے مخفی نہیں اور چند ٹکوں کی خاطر کسی نام نہاد پیر’ صاحبزادے یا سجادہ نشین کو تصوف کو بدنام اور فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی. امریکی و یورپی پالیسی سازوں اور ان کے مقامی گماشتوں کو خوب معلوم ہونا چاہئے کہ بریلوی علماء و مشائخ نے قیام پاکستان کے بعد ملک و ملت کے مفاد میں برپا ہونے والی ہر تحریک میں قائدانہ و مجاہدانہ کردار ادا کیا ہے. تحریک ختم نبوت ہو یا پھر نظام مصطفی کی تحریک’ بریلوی مدارس کے نوجوان ہمیشہ اپنی قربانیوں میں پیش پیش رہے ہیں. زیادہ دور نہ جائیے اور ملعون رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کے خلاف تحریک میں اپنی جانیں نچھاور کرنے والے نوجوانوں کے بارے میں تھوڑا سا کریدیں تو معلوم ہو جائے گا کہ بریلوی مکتب فکر کا ماضی اور حال کس قسم کے اللہ والوں اور مجاھدین کے احوال سے بھرا پڑا ہے.

کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کے استعمار دشمن اور مجاہدین کے مکتب فکر کو کچھ لوگ مغربی طاقتوں کے سامنے فروخت کرنے کی ناپاک سعی کریں اور خود کو اھل سنت بھی کہلوائیں. ہمارے بریلوی اکابرین کے لئے یہ بہت کڑا وقت ہےکہ ان کو اپنے عوام اور مسلک کو اپنے نام نہاد دوستوں اور خیرخواہوں سے بچانا ہے. کل تک قیام پاکستان کی تحریک کے دوران چند مفاد پرست پیروں اور سجادہ نشینوں کا ٹولہ انگریزوں کی ایجنٹی کرتا رہا مگر بریلوی علماء و مشائخ نے ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا. آج پھر عالمی استعمار اپنے پرانے تجربے کو دھرانے کی کوشش کر رہا یے. سجادہ نشینوں اور صاحبزدگان کو مالی و مادی لالچ دے کر فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے. اس سلسلے میں استعمار کا شیطان اعظم اپنے خاص برطانوی چیلوں کو استعمال کر رہا ہے کہ انہیں مسلمانان برصغیر کے درمیان منافرت پھیلانے میں خاص مہارت اور تجربہ حاصل ہے. ایم آئی سکس کے گماشتے اپنے نیٹ ورک کو تصوف کی خدمت کی آڑ میں پھیلا رہے ہیں. مگر بفضل تعالٰی وہ کل بھی ناکام ہوئے تھے اور وہ آج بھی نامراد ہوں گے. ان شاءاللہ

*میلاد اور نعت کے پروگراموں کی فنڈنگ: حقیقت کیا ہے؟*

پاکستان میں میلاد اور نعتوں کے اجتماعات شروع دن ہی سے منعقد ہوتے رہے ہیں مگر گذشتہ چند سالوں سے ان پروگراموں میں تیزی سے شدت اور ان پر اٹھنے والے اخراجات میں بہت ہی غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے. بظاہر اس کو بریلوی مکتب فکر کے عوام کی پذیرائی قرار دے کر ایک عام سی بات سمجھ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے مگر پاکستان کے معروضی حالات میں اس قسم کے بےضرر تجزیے کو نہ صرف قبول کرنا مشکل ہے بلکہ اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے احمقانہ بھی ہوگا. امریکی و یورپی ممالک پاکستان میں جس قسم کی سلفی/دیوبندی بمقابلہ بریلوی/شیعہ صف بندی اور فرقہ واریت دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور اس کے لئے تڑپ رہے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میلاد کے جلسے جلوسوں اور نعت کے پروگراموں کے انتظامات اور تشہیر پر اٹھنے والے وسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور دیانتدارانہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے.

بریلوی مکتب فکر کے لئے امریکی فنڈنگ کے واضح شواہد سنی اتحاد کونسل کی صورت میں ملتے ہیں جس میں شامل جماعتوں کو انفرادی و اجتماعی لیول پر امریکی امداد ملنے کا انکشاف آفیشل دستاویزات کی صورت میں ہوچکا ہے. پاکستان میں فرقہ وارانہ زہر اور فساد پھیلانے کے لئے صاحبزادہ فضل کریم نے جس شجر خبیثہ کی بنیاد رکھی تھی اس کو پوری طرح پروان چڑھانے کا موقع اللہ کریم نے اسے نہیں دیا. اس کے جانشین نے بہرحال ایرانی ایجنٹ اور استعمار کے ہرکارے فیصل رضا عابدی کے ساتھ مل کر نفرت کی فصل کی ہر ممکنہ آبیاری کا عزم کیا ہوا ہے.

بریلوی مکتب فکر کو بالواسطہ اور
بلاواسطہ امریکی و یورپی فنڈنگ کے ڈانڈے ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان مزارات تک جاتے ہیں جن کی تعمیر و تزئین اور آرائش کے لئے مالی امداد امریکی و یورپی حکومتیں ثقافت و ورثے کی حفاظت کے عنوانات کے تحت کرتی ہیں. یہ کوئی خفیہ اور ڈھکی چھپی فنڈنگ نہیں بلکہ اعلانیہ اور ببانگ دہل کی جانے والے امداد ہے جو مختلف مزارات کو دی جاتی رہی ہے. قرین قیاس یہ ہے کہ یہ پیسہ اس اصل فنڈنگ کے عشر عشیر بھی نہیں جو بریلوی مکتب فکر کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے کی جاتی رہی ہے.

میلاد کے پروگراموں کی طرح ملک بھر میں یکایک نعت کی محفلوں اور نعت خوانوں پر سالانہ ملک کے طول و عرض میں بلامبالغہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے. مانگے تانگے کے وسائل سے مساجد و مدارس چلانے والے اچانک کیونکر اور کیسے اتنی بڑی اور پرشکوہ محافل منعقد کرانے لگے جن کی صرف تشہیر کے مصارف کروڑوں میں جاتے ہیں. اس پر مستزاد ان نعت خوانوں کی خاص انداز میں میڈیا کے ذریعے پروجیکشن کسی مربوط پلان اور اسٹریٹجی کے بغیر ناممکن ہے. سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بک پر ان نعت خوانوں اور میلاد کے پراگرام کرنے والوں کے صفحات کو اسپانسر کیا جاتا ہے تاکہ ڈیجیٹل آؤٹ ریچ کو ممکن بنایا جا سکے.

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مخصوص بریلوی پیروں کی ویب سائٹس بنوانے اور ان کو مشہور کروانے کے لئے خاصے ایڈوانس لیول کی تکنیکی معاونت فراہم کی گئی ہے. ان میں وہ گدی نشین بھی شامل ہیں جن کے پروگراموں میں امریکی و یورپی سفراء بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں. ان گدی نشینوں کی ٹیم میں یورپ میں پڑھے لکھے پروفیشنل لوگ موجود ہیں جو ان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اپنا اثر رسوخ قائم رکھنے کے گر سکھاتے ہیں. ایسے گدی نشین بھی موجود ہیں جو امریکہ میں اپنا پروفیشنل کیرئیر چھوڑ کر تصوف کی “خدمت” کے لئے پاکستان آبیٹھے ہیں.

اب اس ساری سادگی پر کوئی مر کیوں نہ جائے! تصوف کے اپنے من پسند برانڈ کے پھیلاؤ کے لئے امریکہ سب کچھ کرنے کو تیار ہے اور پاکستان کے کچھ بریلوی گدی نشین مندرجہ بالا کام کر رہے ہیں تو اس تناظر میں اس سے بڑھ کر امریکی فنڈنگ کی اور کون سے واقعاتی شواہد کی ضرورت ہوگی؟

ملکی سالمیت کے ذمہ دار ادارے اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ مغربی ممالک اپنے ایجنڈے کے حصول کے لئے کس طرح مختلف لوگوں کی فنڈنگ کرتے ہیں اور اس معاملے میں نہ تو کوئی رسید دی جاتی ہے اور نہ ہی لی جاتی ہے. یہی کام صوفی اسلام کی ترویج کرنے اور کروانے والے کر رہے ہیں. امریکی و یورپی فنڈنگ سے ملک میں میلاد کی محافل اور جلوس اس لئے نکلوائے جارہے ہیں کہ کل کلاں کو اس سارے معاملے کا رخ اپنے سیاسی مقاصد کی طرف موڑا جائے. اس فنڈنگ کا اصل اور بالکل درست اندازہ لگانا ہے تو ہرسال امریکہ’ برطانیہ’ یورپ’ آسٹریلیا’ کنیڈا وغیرہ کے ان گنت دورے کرنے والے پیروں اور گدی نشینوں کے حسابات چیک کرنا ہوں گے کہ وہ کتنا مال کہاں سے اور کس سے وصول کرتے ہیں اور پاکستان واپس آکر کن مقاصد کے لئے خرچ کرتے ہیں. بریلوی علماء و مشائخ کو بھی اپنی صفوں میں موجود ان کالی بھیڑوں کا محاسبہ کرنا چاہئے.

*سد باب*

تصوف کی اس بدنامی کو روکنے اور پاکستان میں دیوبندی/سلفی اور بریلوی مکتب فکر کے مابین فرقہ وارانہ فساد کروانے کے لئے کی جانے والی کوششوں اور فنڈنگ کو روکنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کی فوری طور پر ضرورت ہے:

1. بریلوی مکتب فکر کے کبار علماء’ پیران کرام اور سجادہ نشینوں کو اپنی مصلحت آمیز خاموشی کو فورا توڑنا ہوگا اور اپنے مسلک و عوام کو استعمار کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ہوگا. اس سلسلے میں سنی اتحاد کونسل ٹائپ کی تنظیموں اور ان کے شیعہ عناصر سے کھلم کھلا الائنس کو مسترد کر کے ان پر اپنے پروگراموں میں آنے پر پابندی عائد کی جائے.

2. ملک بھر میں جن جن مزارات اور خانقاہوں پر امریکی و یورپی اہلکاروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ان کے معاملات کی مکمل تفتیش کی جائے.

3. بریلوی مفتیان کرام فوری طور پر امریکی و یورپی امداد سے مزارات و خانقاہوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش کے بارے میں فتوی جاری کریں.

4. مشکوک سرگرمیوں کے حامل نام نہاد پیروں اور صاحبزادگان کے بیرون ممالک دوروں پر ملکی سالمیت کے اداروں کو کڑی نگاہ رکھنی چاہیئے اور ان کی حسابات کے ساتھ ساتھ آمدورفت کے وقت موجود رقوم کے بارے میں مکمل چھان بین کی جائے تاکہ اس قسم کی امداد پاکستان کے اندر کسی فساد کے لئے استعمال نہ ہوسکے.

5. ایل یو بی پی (LUBP ) اور اس قبیل کی دیگر ویب سائیٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے. آزادی اظہار کے نام پر نفرت’ جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے اور فرقہ وارانہ تعصب کو ہوا دینا کسی طور پر قابل قبول نہیں اور پاکستان کی سالمیت کو اس سے شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے.

6. پاکستان کے دیوبندی اور سلفی علماء کو مشترکہ طور پر تکفیر کے فتنے کے بارے میں اپنا موقف اور منہج بار بار عوام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے. افترا اور کذب بیانی کے تسلسل نے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کے اذہان میں شکوک پیدا کردیئے ہیں اور علماء اس پر مطمئن ہوکر بیٹھے ہیں کہ ہمارا موقف معلوم ہے اور اس کے ابلاغ کا کوئی مسئلہ نہیں. اس طرز فکر پر نظرثانی کی ضرورت ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں