104

نفیس مزاجی:علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

 یادیں از قلم: زبیدہ عزیز صاحبہ
نفیس مزاج اللہ تعالی نے ابو جی کو بہت نفیس مزاج عطا کیا تها.ان کا یہ مزاج ہر چیز میں نمایاں تها.لباس، خوراک،خرید و فروخت غرض ہر معاملے میں وہ عمدہ ذوق رکهتے تهے. میں نے بہت کم لوگوں کو ایسی نفیس طبیعیت کا مالک دیکها ہے. خاص طور پر دین دار طبقہ میں اس طرف توجہ کم پائ جاتی ہے.ابو جی نے ہمیشہ عمدہ اور باوقار لباس پہنا.اہل خاندان اور دوست ان کے اس ذوق سے اچهی طرح واقف تهے. ابو جی اپنے اس مزاج کی وجہ سے مجلس میں الگ پہچانے جاتے. عیدین پر وہ خاص اہتمام فرماتے. بہترین لباس بنواتے،بہت خوشی اور دل سے پہنتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے.شلوار، قمیص یا کرتا،واسکٹ اور قراقلی ٹوپی ان کا پسندیدہ لباس تهے. لباس پہننے کا سلیقہ بهی بہت تها.لباس کے ساته بہت اچها جوتا موزوں کے ساته پہنتے.قریبی دوستوں کو بهی کہتے یہ کیا آپ نے چپل پاوں میں ڈال رکهی ہے. بند جوتا پہنا کریں.
اس معاملے میں ان کے پیش نظر ہمیشہ اللہ کا یہ حکم رہتا:{وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ}الضحى : 11
پهل،سبزی،گوشت یا خوردو نوش کی ہر چیز معیاری خریدتے.ان کی خریدی ہوئ چیز میں نقص نکالنا ممکن نہ ہوتا. بو جی کی اس عادت کی وجہ سے گهر والوں کے لیے کسی بهی غیر معیاری چیز کا استعمال مشکل ہو جاتا.
ظاہری طہارت اور نفاست ان کا خاصہ تهی جو ان کے باطن کی پاکیزگی کی عکاس تهی. غسل کرتے،صاف ستهرا لباس پہنتے، عمدہ خوشبو استعمال کرتے. کبهی ان کے جسم،لباس یا کسی بهی چیز میں کوئ ناخوشگوار بو محسوس نہیں کی گئ.
خوراک میں کدو گوشت پسندیدہ ترین رہا. گوشت کے بعد اچهی پکی ہوئ دال مزے لے کر کهاتے.ذائقے کے علاوہ کهانے کے ظاہر کو بهی پیش نظر رکهتے.ان کا مشہور جملہ تها : جس کهانے کا رنگ اچها نہیں اس کا ذائقہ کیا ہو گا.اپنے اس ذوق کی وجہ سے دوست احباب کو بهی عمدہ کهانا کهلاتے. میٹها بہت پسند تها مگر شوگر ہو جانے کے بعد خود نہ کهاتے البتہ اسی شوق سے بچوں کے لیے لاتے.
سر اور داڑهی کے بال سلیقے سے جما کر رکهتے، بال کبهی بکهرے ہوئے نہیں دیکهے. صحت مندی کی حالت میں خود حجام کے پاس جاتے مگر گزشتہ کئ سالوں سے حجام کو بلوا لیتے اور وہ گهر یا دفتر جہاں ہوتے حجامت بنا دیتا.
ان کا نفیس مزاج گفتار اور چال میں بهی جهلکتا.ضرورت کی بات نرم اور دهیمے لہجے میں کرتے. اس نرمی میں وقت کے ساته اضافہ ہوا. حس مزاح بهی بہت عمدہ تهی اگرچہ گفتگو میں اس کا تناسب کم ہوتا.ذوالحجہ کا چاند دیکهنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں گئے تو ساته بیٹهے ایک دوست نے کہا کہ آپ مجهے نظر نہیں آئے تو مسکرا کر کہا میں اتنا بڑا آپ کو نظر نہیں آیا تو چاند آپ کو کیسے نظر آئے گا.
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال کرنے کے ساته بہت زیادہ شکر ادا کرتے.اس بات کا اظہار بچوں کے سامنے بارہا کرتے کہ اللہ نے مجه پر بہت زیادہ احسان کیے ہیں.اس نے مجهے ہر طرح سے بہت نوازا ہے.میں اس کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے.
اے اللہ!تو ان سے راضی ہو جا اور ان کو اعلی علیین میں بلند درجہ عطا فرما. ان کی بہترین مہمانی فرما اور ان کا حامی و ولی بن جا. آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں