114

اولاد سے تعلق: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم: زبیدہ عزیز صاحبہ

اولاد سے تعلق ابو جی اپنی سب اولاد سے یکساں محبت کرتے اور خیال رکهتے تهے.ہم چه(6) بہن بهائ ہیں،چار بیٹیاں،دو بیٹے.انہوں نے کبهی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دی اور نہ بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے میں سر چڑهایا.اس معاملے میں وہ حقیقی معنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے پابند رہے.ہر بچہ اپنی جگہ سمجهتا تها کہ ابو جی اس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور وہ ان کا سب سے زیادہ لاڈلا ہے. ان کے دل میں کسی کی خاص جگہ اگر تهی بهی تو اپنے قول یا عمل سے اس کا اظہار کبهی نہیں کیا. بیٹیوں میں سے جو موجود نہ ہوتی اسے میری بیٹی کہہ کر پکارتے اور دوسری کو کہتے میری بیٹی سے میری بات کرواؤ. بیٹیوں کو اکثر کهڑے ہو کر پیشانی چوم کر ساته لگا کر ملتے.تقریبا ہر دوسرے دن فون کر کے خیریت دریافت کرتے.اگر چند دن اوپر ہو جاتے تو محبت سے پوچهتے آپ کہاں غائب ہیں ؟ “تو”کر کے بات نہ کرتے بلکہ “آپ” کہہ کر بلاتے.
ابو جی اپنے بچوں کے رازدان تهے.ایک کی بات دوسرے کو ہرگز نہ بتاتے.کبهی کسی بچے کا عیب دوسرے کے سامنے نہ کهولتے بلکہ جو موجود نہ ہوتا اس کی تعریف زیادہ کرتے. سب بچوں کی خوبیوں اور خامیوں سے پوری طرح آگاہ تهے.خوبیوں کو اجاگر کرتے اور خامیوں کو نظر انداز.
بچوں کے آرام و سکون کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کے کئ سال سخت محنت کی. جماعتی سرگرمیوں اور مسجد کی ذمہ داری کے ساته سیمنٹ کا کاروبار کیا.الرحمان سیمنٹ ایجینسی کے نام سے جی ایٹ میں سالہا سال کام کیا.کاروبار میں اتار چڑهاؤ بهی آئے مگر بچوں کو کبهی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی.جو بهی جهیلا اپنی ذات پر جهیلا.اللہ نے برکت بهی بہت دی.
سب بچوں کو بہترین اداروں میں تعلیم دلوئ، بہترین کهلایا اور بہترین پہنایا. تعلیمی میدان میں کبهی اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کیے. ہماری خواہشات کو اگر وہ شرعی حد کے اندر تهیں تو ہمیشہ پیش نظر رکها. جب میں نے قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑهنے کی خواہش کا اظہار کیا تو خوش دلی سے اجازت دی البتہ کچه حدود کی پابندی کی طرف رہنمائ کر دی جیسے حجاب اور غیر ضروری مشاغل سے اجتناب. چهوٹی بہن ڈاکٹر بننا چاہتی تهیں تو پوری طرح اس کا ساته دیا. بهائ نے یونیورسٹی میں اکنامکس چهوڑ کر شریعہ اور لاء کا شعبہ اختیار کیا تو کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ فرمایا. بچوں کو جائز حدود میں اپنی مرضی کا اختیار دیتے.نام نہاد مذہبی سختی اور تنگ نظری ان میں نہ تهی. اللہ کے فضل سے اولاد نے بهی ان کے اعتماد کو کبهی ٹهیس نہ پہنچائ.
اولاد کے ساته ان کا مزاج ہمیشہ دوستانہ رہا.ہمارے ہاں سخت گیر باپ کا جو معروف کردار ہے وہ کبهی اس پر پورے نہیں اترے. مار تو دور کی بات وہ ڈانٹ ڈپٹ سے بهی گریز کرتے تهے.ہر وقت کی نصیحت کے قائل نہیں تهے.مناسب وقت اور موقع کا انتظار کرتے.کبهی طنز کے تیر بچوں پر نہ چلائے،کبهی کسی قسم کا احسان جتانے والا رویہ اختیار نہیں کیا کہ میں نے آپ کے لیے یہ اور یہ کیا.جو بات انہیں غیرمناسب لگتی اسے شفقت اور پورا اعتماد دے کر مختصر الفاظ میں سمجها دیتے. بات اس انداز میں کرتے کہ ہم دل و جان سے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے.سب بچوں کو اکٹها دیکهتے تو ایک خاص چمک آنکهوں میں اور ایک دلنشیں مسکراہٹ ہونٹوں پر آ جاتی.خوش ہوتے اور اس بات کا اظہار بهی کرتے کہ اللہ نے مجهے اچهے بچے دیے ہیں.
بچپن میں جمعہ کو چونکہ سکول میں چهٹی ہوتی تهی تو عصر کی نماز کے بعد ہم بچوں کو لے کر چائنیز پارک اسلام آباد جاتے.یہ پارک ان دنوں نیا بنا تها اور اس میں قسم قسم کے جهولے لگائے گئے تهے.خود ایک بنچ پر بیٹه جاتے اور ہم ایک جهولے سے دوسرے جهولے پر ہوتے ہوئے پورے پارک کا چکر لگا کر ان کے پاس آجاتے اور مغرب سے کچه پہلے گهر آجاتے. کبهی نہیں کہا کہ یہ کیا تم میرا وقت ضائع کرتے یو،میں بہت مصروف ہوتا یوں.اسی طرح وقتا فوقتا دیگر جگہوں کی سیر کرواتے.کبهی خود مصروف ہوتے تو کسی اور کو کہتے کہ ہمیں لے جائیں.
بچوں کے علاوہ اپنے دامادوں اور بہووں کے ساته بهی یکساں شفقت کا معاملہ کرتے.نواسوں اور پوتوں سے بهی بہت محبت کرتے.خاص طور پر ان کے تعلیمی میدان میں اچهی کارکردگی پر خوش ہو کر حوصلہ افزائ کے لیے انعام دیتے. پوتی اور نواسی کو پیار سے پاس بٹها کر حال پوچهتے.ان کے ساته ہلکا پهلکا مزاح بهی کرتے اور انہیں ہنساتے.
اہم معاملات میں موجود بچوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کرتے. وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی عملی تصویر تهے.
“خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي”
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گهر والوں کے ساته اچها ہے اور میں اپنے گهر والوں کے ساته سب سے اچها ہوں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں