106

کشادہ دلی: علامہ عبدالعزیز حنیف رحمہ اللہ

یادیں از قلم: زبیدہ عزیز صاحبہ

ایک اور نعمت جو اللہ نے ابو جی کو عطا کی تهی،وہ کشادہ دلی تهی.وسیع دل کے مالک تهے. معاف کرنے میں دیر نہ کرتے.دل میں لوگوں کے لیے بدگمانیاں نہیں رکهتے تهے.
بهائ عزیز الرحمن کے الفاظ میں: “ابو کی سب سے حسین بات ان کی معاف کرنے کی غیرمعمولی عادت تھی۔ وہ صرف زبانی جمع خرچ کرکے درگزر نہیں کرتے تھے بلکہ دل سے شکوہ اور شکایت ایسے مٹا دیتے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔معاف کرنا اللہ کی صفت ہے اور اس صفت کا بندے میں احساس ہونا احسان کا درجہ ہے۔ لوگوں کی کمزوریوں اور خطاؤں کو وہ اس طرح بھول جاتے تھے جیسے ان سے واقف ہی نہ ہوں۔یہ مقام اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنے نفس کو بالکل مار کر اللہ کی رضا میں خوش ہوتا ہے۔ ابو نے اس راز کو پالیا تھا اور اسی لیے وہ ان پریشانیوں کا شکار ہی نہیں تھے کہ فلاں نے ایسے کردیا اور فلاں نے ایسے کر دیا.”
اللہ نے انہیں شح نفس و قلب سے بچایا ہوا تها.خرچ بهی خوش دلی اور کشادگی سے کرتے.وہ ان مردوں میں سے نہ تهے جو گهر والوں کو تنگی میں رکهتے ہیں.ہماری والدہ اکثر کہتیں کہ کبهی مجهے خرچ میں تنگی نہیں ہونے دی. کبهی وہ کہتیں کہ آپ بچوں پر زیادہ خرچ کرتے ہیں خراب ہو جائیں گے تو کہتے نہیں خراب ہوں گے،میں انہیں کسی احساس کمتری میں مبتلا نہیں دیکهنا چاہتا.الحمد للہ ان کی اس عادت نے اولاد کو اتنا اعتماد دیا کہ قیمتی سے قیمتی چیزسامنے آجانے پر بهی نہ حسرت ہوئ اور نہ لالچ.
یہ وسعت صرف اپنی ذات یا گهر والوں پر خرچ کرنے کے حوالے سے نہ تهی بلکہ سب کے لیے ان کا دل ایسا ہی کشادہ تها.طلب کرنے والے کی ضرورت سے بڑه کر دینے کی کوشش کرتے. کسی کو دو ہزار کی ضرورت ہوتی تو پانچ ہزار دے دیتے. لوگوں کے چہروں سے ان کی ضرورت کا اندازہ کر کے سوال کرنے سے پہلے مدد کرتے.البتہ پیشہ ور بهکاریوں کو دینے کے حق میں نہ ہوتے.کہتے ان کے بجائے ان ضرورت مندوں پر خرچ کرو جو ہاته نہیں پهیلاتے. خاموش مدد کرنے کے قائل تهے.وفات کے بعد کئ لوگوں نے ان کی طرف سے کی جانے والی مدد کے واقعات بیان کیے ہیں اور کہا وہ اللہ کے ولی تهے. لوگوں کو دیے ہوئےقرض معاف کر دیتے. یہ شعر پڑها کرتے
کرو تم مہربانی اہل زمین پر
خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر
ہر ایک کا دل رکهتے،کوشش رہتی کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو.ایک دن میری بہن نے کہا:ابو جی سب کہتے ہیں میں آپ پرنہیں گئ(یعنی ظاہری صورت میں )تو جواب دیا : تمہارا دل مجه پر گیا ہے.
دل کی اس وسعت کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کے جید علماء سے بہت اچها ربط و تعلق رہا. مجهے اچهی طرح یاد ہے لال مسجد سے مولانا عبداللہ اکثر فجر کے بعد واک کرتے ہوئے ہمارے گهر تشریف لاتے اور ابو جی کے ساته مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے.اسی طرح بعض اوقات ابو جی ان کی طرف چلے جاتے. مسلکی تعصب ان کے ہاں نہیں تها اگرچہ وہ مسلک اہلحدیث کے اول و آخر نمائندہ رہے اور قرآن و سنت پر مبنی اس منہج ہی کو اختیار کیا. محرم میں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ امن کمیٹیوں کے ممبر رہے اور ان میں اپنا کردار ہمیشہ ادا کرتے رہے.
دل کی اس وسعت نے انہیں عام و خاص میں ہر دلعزیز بنا دیا تها.جو ان سے ملتا ان کی وسعت قلبی کا معترف ہو جاتا اور اکثر اوقات لوگ ان سے گہرا قلبی تعلق قائم کر لیتے.گزشتہ سال اپنے ذاتی گهر میں منتقل ہو گئے تهے.وہاں ان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ میں اپنا گهر بیچ رہا تها مگرجب مجهے معلوم ہوا کہ مولانا صاحب یہاں منتقل ہو رہے ہیں تو اب کوئ مجهے اتنی اور اتنی رقم زیادہ بهی دے تو فروخت نہیں کروں گا.
کل تعزیت کے لیے آنے والی ایک خاتون نے کہا: انہوں نے انسانوں کو تکلیف نہیں دی تو اللہ نے بهی انہیں تکلیف نہ دی. اے اللہ! تیری ذات کی خاطر جو کام انہوں نے کیے، جو درگزر کیا،جو خرچ کیا، جو دل رکهے، جو دل جوڑے ،اس سب کا کئ گنا بڑها چڑها کر اجر ان کو دینا.آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں